EN हिंदी
دو اجنبی | شیح شیری
do ajnabi

نظم

دو اجنبی

جاوید کمال رامپوری

;

آج بھی صبح سے نکلے تھے کہیں
کوئی امید کوئی آس نہیں

کوئی وعدہ کوئی اقرار نہیں
کون جانے کہ کہاں جاتے ہو

روز آتے ہو چلے آتے ہو
اجنبی دیس ہے پردیسی ہو

کوئی رشتہ کوئی ناطہ بھی نہیں
کوئی اپنا یا پرایا بھی نہیں

نوکری یا کسی دھندے کے لئے
کوئی نیتا یا کوئی افسر ہے

کوئی فن کوئی ہنر آتا ہے
دست کاری یا کوئی کام نہیں

گھر سے کچھ ساتھ میں لائے ہوگے
خرچ کے واسطے کچھ دام نہیں

جانے کس آس پہ تم جیتے ہو
جانے تم کھاتے ہو کیا پیتے ہو

آج بھی صبح سے بھوکے ہوگے
ناشتہ چائے یا کچھ اور نہیں