EN हिंदी
دیئے آنکھوں کی صورت بجھ چکے ہیں | شیح شیری
diye aankhon ki surat bujh chuke hain

نظم

دیئے آنکھوں کی صورت بجھ چکے ہیں

نجیب احمد

;

وصل کے لمحوں کی گنتی کرنے والے ہاتھ حدت سے تہی ہیں
موج میں آئے ہوئے دریا میں کشتی کون ڈالے

مانجھیوں کے گیت لہروں کی طرح ساحل کی بھیگی ریت پر بکھرے ہوئے ہیں
اب کسی بڑھیا کی گٹھری کوئی اہل دل اٹھا کر بستیوں کا رخ نہیں کرتا

کسی ہمسائے سے احوال دل معلوم کرنا کار بے اجرت ہوا ہے
نفسی نفسی کی ہوائیں ذات کے تاریک جنگل میں بڑی آسودگی سے چل رہی ہیں

خانۂ دل میں وفاؤں کے دیئے آنکھوں کی صورت بجھ چکے ہیں
بھیڑ میں رستہ نہیں ملتا چراغوں کی قطاروں میں چراغ گل نہیں ملتا کہ جس پر روشنی کا گل کھلا ہو

وصل کے لمحوں میں رنگ نور بھرنے والی آنکھیں اپنی نرمی سے تہی ہیں
وصل کے لمحوں میں رنج عشق بھرنے والی پوریں اپنی گرمی سے تہی ہیں