حد ادراک سے ماورا
منزل خاک تک
ایک آراستہ
جھومتے جھامتے عصر سے لمحۂ چاک تک
دن گزر جائے گا
بس یونہی دن گزر جائے گا
نیم معلوم صدیوں کے سینۂ اسرار کو
دائرہ دائرہ کھولتے کھولتے
اپنے چھبیس برسوں کا سونا
ترے غم کی میزان پر تولتے تولتے
دن گزر جائے گا
بس یونہی دن گزر جائے گا
کیش کی گنتیوں فون کی گھنٹیوں
گاہکوں کی ہمہ وقت تکرار میں
ووچروں گوشواروں ضمیموں کے انبار میں
دن گزر جائے گا
بس یونہی دن گزر جائے گا
نظم
دن گزر جائے گا
فرخ یار