دن گزرتے ہیں
دن کیسے گزرتے ہیں
یوں تو سب ہی دن گزر جاتے ہیں
جو زندہ ہیں
وہ تو گزارتے ہیں
ذلیل ہوتے ہوئے
کبھی بھوک کے ہاتھوں
کبھی چاروں طرف پھیلی ان وباؤں
کی سر پرستی میں
جو خدا بن جاتی ہیں
سفاک بے رحمی کے لباس میں
گھروں کی منڈیروں پر چلتی ہیں
چھلاووں کی طرح
چباتی ہیں ماؤں کے کلیجے
چیرتی ہیں ننھے بچوں کا دل
اپنی کسی ضیافت میں پیش کرنے کے لیے
اپنی ہی جیسی بلاؤں کو
نہیں روک سکتا کوئی انہیں
وہ بھی جو ان کا خدا ہے
وہ بلاتے ہیں اپنے خدا کو بھی
اس ضیافت میں
شاید وہ بھی انسانی گوشت کا
شوقین ہے
اور اکساتا ہے انہیں
جب جب اسے اشتہا ہوتی ہے
ان کا خدا
صرف ان کا خدا ہے
ان کا نہیں
جن کے کلیجے چبائے جا رہے ہیں

نظم
دن
عذرا عباس