پل ہی پل میں یہ سارا تماشا ہوا
شہر کے پانو میں سنسناتی ہوئی
ایک گولی لگی
اور وہ چکرا کے
دھرتی پہ اوندھا گرا
دیکھتے دیکھتے اس کے چاروں طرف
خون کا ایک تالاب سا بن گیا
جھاڑیوں سے ڈری سہمی چڑیاں اڑیں
اونچے اونچے درختوں کے
گنجان پتوں میں دبکے ہوئے
سب پرندے اڑے
چیختے چیختے
اور دہشت زدہ آسمانوں
کے صحراؤں میں کھو گئے
خون کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے
اس میں چپ چاپ اوندھا پڑا شہر ہے
کاش دے کر ذرا سا سہارا اسے
اب اٹھا لے کوئی
اس کی ایڑی کی ہڈی میں اٹکی ہوئی
گرم زہریلی گولی نکالے کوئی
شہر زندہ ہے اب تک
بچا لے کوئی

نظم
دلی 25 جون 1975
کمار پاشی