EN हिंदी
دل پیت کی آگ میں جلتا ہے | شیح شیری
dil pit ki aag mein jalta hai

نظم

دل پیت کی آگ میں جلتا ہے

ابن انشا

;

دل پیت کی آگ میں جلتا ہے ہاں جلتا رہے اسے جلنے دو
اس آگ سے لوگو دور رہو ٹھنڈی نہ کرو پنکھا نہ جھلو

ہم رات دنا یوں ہی گھلتے رہیں کوئی پوچھے کہ ہم کو نا پوچھے
کوئی ساجن ہو یا دشمن ہو تم ذکر کسی کا مت چھیڑو

سب جان کے سپنے دیکھتے ہیں سب جان کے دھوکے کھاتے ہیں
یہ دیوانے سادہ ہی سہی پر اتنے بھی سادہ نہیں یارو

کس بیٹھی تپش کے مالک ہیں ٹھٹھری ہوئی آگ کے انگیارے
تم نے کبھی سینکا ہی نہیں تم کیا سمجھو تم کیا جانو

دل پیت کی آگ میں جلتا ہے ہاں جلتا ہے اسے جلنے دو
اس آگ سے تم تو دور رہو ٹھنڈی نہ کرو پنکھا نہ جھلو

ہر محفل میں ہم دونوں کی کیا کیا نہیں باتیں ہوتی ہیں
ان باتوں کا مفہوم ہے کیا تم کیا سمجھو تم کیا جانو

دل چل کے لبوں تک آ نہ سکا لب کھل نہ سکے غم جا نہ سکا
اپنا تو بس اتنا قصہ تھا تم اپنی سناؤ اپنی کہو

وہ شام کہاں وہ رات کہاں وہ وقت کہاں وہ بات کہاں
جب مرتے تھے مرنے نہ دیا اب جیتے ہیں اب جینے دو

دل پیت کی آگ میں جلتا ہے ہاں جلتا رہے اسے جلنے دو
اس آگ سے انشاؔ دور رہو ٹھنڈی نہ کرو پنکھا نہ جھلو

لوگوں کی تو باتیں سچی ہیں اور دل کا بھی کہنا کرنا ہوا
پر بات ہماری مانو تو یا ان کے بنو یا اپنے رہو

راہی بھی نہیں رہزن بھی نہیں بجلی بھی نہیں خرمن بھی نہیں
ایسا بھی بھلا ہوتا ہے کہیں تم بھی تو عجب دیوانے ہو

اس کھیل میں ہر بات اپنی کہاں جیت اپنی کہاں مات اپنی کہاں
یا کھیل سے یکسر اٹھ جاؤ یا جاتی بازی جانے دو

دل پیت کی آگ میں جلتا ہے