یوں کہنے کو راہیں ملک وفا کی اجال گیا
اک دھند ملی جس راہ میں پیک خیال گیا
پھر چاند ہمیں کسی رات کی گود میں ڈال گیا
ہم شہر میں ٹھہریں، ایسا تو جی کا روگ نہیں
اور بن بھی ہیں سونے ان میں بھی ہم سے لوگ نہیں
اور کوچے کو تیرے لوٹنے کا تو سوال گیا
ترے لطف و عطا کی دھوم سہی محفل محفل
اک شخص تھا انشا نام محبت میں کامل
یہ شخص یہاں پامال رہا، پامال گیا
تری چاہ میں دیکھا ہم نے بحال خراب اسے
پر عشق و وفا کے یاد رہے آداب اسے
ترا نام و مقام جو پوچھا، ہنس کر ٹال گیا
اک سال گیا، اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کی بھی اب ہوش نہیں دیوانے کو
دل ہاتھ سے اس کے وحشی ہرن کی مثال گیا
ہم اہل وفا رنجور سہی، مجبور نہیں
اور شہر وفا سے دشت جنوں کچھ دور نہیں
ہم خوش نہ سہی، پر تیرے سر کا وبال گیا
اب حسن کے گڑھ اور شہر پناہیں سونی ہیں
وہ جو آشنا تھے ان سب کی نگاہیں سونی ہیں
پر تو جو گیا ہر بات کا جی سے ملال گیا
نظم
دل آشوب
ابن انشا