EN हिंदी
دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام | شیح شیری
diwaron ka jangal jis ka aabaadi hai nam

نظم

دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام

ساحر لدھیانوی

;

دیواروں کا جنگل جس کا آبادی ہے نام
باہر سے چپ چپ لگتا ہے اندر سے کہرام

دیواروں کے اس جنگل میں بھٹک رہے انسان
اپنے اپنے الجھے دامن جھٹک رہے انسان

اپنی بیتی چھوڑ کے آئے کون کسی کے کام
باہر سے چپ چپ لگتا ہے اندر سے کہرام

سینے خالی آنکھیں سونی چہرے پہ حیرانی
جتنے گھنے ہنگامے اس میں اتنی گھنی ویرانی

راتیں قاتل صبحیں مجرم ملزم ہے ہر شام
باہر سے چپ چپ لگتا ہے اندر ہے کہرام

حال نہ پوچھیں درد نہ بانٹیں اس جنگل کے لوگ
اپنا اپنا سکھ ہے سب کا اپنا اپنا سوگ

کوئی نہیں جو ہاتھ بڑھا کر گرتوں کو لے تھام
باہر سے چپ چپ لگتا ہے اندر ہے کہرام

بے بس کو دوشی ٹھہرائے اس جنگل کا نیایے
سچ کی لاش پہ کوئی نہ روئے جھوٹ کو سیس نوائے

پتھر کی ان دیواروں میں پتھر ہو گئے رام
باہر سے چپ چپ لگتا ہے اندر ہے کہرام