کسی ہنستی بولتی جیتی جاگتی چیز پر
یہ گھمنڈ کیا یہ گمان کیوں
کہیں اور آپ کی جان کیوں
یہ تو سلسلے ہیں اسی فریب خیال کے
غم ذات و خیر و جمال کے
وہی پھیر اہل سوال کے
اجی ٹھیک ہے یہ وفا کا زہر نہ گھولیے
ارے آپ جھوٹ ہی بولئے
نہیں سب کے بھید نہ کھولیے
کوئی کیا کرے نہ ملیں جو رنگ ہی رنگ سے
ڈرو اپنے جی کی امنگ سے
کٹے کیوں نگاہ پتنگ سے
کبھی بیکسی کو پکارتے ہیں شجر حجر
مرے پاس کچھ بھی نہیں مگر
بڑی زندگی ہے ادھر ادھر
یہ سنبھلتے ہاتھوں میں کانپتی ہے کمان کیوں
یہ سرک رہی ہے مچان کیوں
یہ کھسک رہے ہیں مکان کیوں
نظم
دیوار سے گفتگو
محبوب خزاں