تو مجھے گود میں لے کے یاروں عزیزوں میں بازار و دفتر کو جاتا
مجھے یاد ہے یہ
شہر کی نیم تاریک گلیوں میں اکثر میں سنتا تھا اک ڈر کی چاپ اپنے پیچھے سے آتی
میرے بچپن کی شفاف معصوم آنکھوں میں نامہرباں جانے پہچانے چہروں کا ڈر تھا
میرے دل کا یہ شیشہ اک انہونے ڈر سے تڑخ سا گیا تھا کہ جس کی صدا تک نہیں تھی
یہ وہ ڈر تھا کہ جس کی کوئی ایک تشریح ممکن نہیں تھی
مگر میرے کچے سے دل میں
ایک آسیبی پیپل کی جڑ تھی مجھ کو تو اک دن انہی میں اکیلا چھوڑ دے گا
جس کی شاخیں ہراساں نگاہوں سے نکلی وہ شاخیں مجھے بید مجنوں سا لرزائے رکھتیں
تیرا سینہ وہ دیوار کعبہ تھا جس سے چمٹ کر میں دنیا کے ہر غم سے بیگانہ ہوتا
تیرے مشفق دو لب گویا باب حرم تھے
وہ بوسہ نہیں تھا حلاوت کا در اک کھلا تھا
جس سے شیریں لطافت میں گوندھی تمازت مرے دن کو تاباں مری رات کو گرم رکھتی
ڈر اندھیرے کا ڈر شہر کی تنگ و تاریک گلیوں کا ڈر میرے بچپن کا حصہ رہا ہے
ڈر وہ اسکول کے راستے میں کھڑے ایک مجہول انساں کا ڈر جس کو خود ہم سے ڈر تھا
ڈر وہ متروک بالیں پہ ڈیرا کیے کچھ چڑیلوں کا ڈر جو ہمیشہ کا قصہ رہا ہے
خیر یہ ڈر تو بچپن کا حصہ ہوئے بے مروت شناسا سے چہروں کا ڈر ہے ابھی بھی
میرے اندر کا سہما سا بچہ وہ دیوار کعبہ ابھی ڈھونڈھتا ہے کہ جس میں اماں تھی
آج دفتر سلامت ہے بازار و کوچہ کی رونق وہی ہے
وہ دیوار کعبہ مگر اب نہیں ہے
میں نومبر کے اس سرد دن میں ٹھٹھرتا ہوں اب بھی کہ جب تو اکیلا مجھے کر گیا تھا
نظم
دیوار کعبہ ۱۹ نومبر ۱۹۸۹
بلال احمد