ایک دیوار جو حائل ہے مری سوچوں میں
کتنے پیچیدہ سوالوں سے مجھے روکتی ہے
جب بھی میں رخت سفر باندھتی ہوں شانے پر
اپنی جادو بھری ہستی سے مجھے ٹوکتی ہے
یہ جو دیوار کہ رہتی ہے سیہ خانوں میں
دن ڈھلے اپنے طلسمات کو دکھلاتی ہے
مجھ کو محصور کیے رکھتی ہے انگاروں میں
چار جانب رخ انوار سے بہلاتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ تاروں سے دمکتی ہوئی رات
اک ذرا جنبش مژگاں سے بھی بجھ جائے گی
میری سوچوں کے تسلسل کو یہ بپھری ناگن
ایک ہی آن میں افسوس نگل جائے گی
صبح ہوتے ہی یہ دیوار سیہ خانوں میں
ریت کے ڈھیر کی مانند اتر جائے گی
رات کی جادوگری خواب سی بن جائے گی
شمع دانوں میں فقط راکھ ہی رہ جائے گی
اک نیا دن مری ویران گزر گاہوں پر
لے کے کشکول مرے ساتھ اتر آئے گا
میرے دامن سے لپٹ کر یہ سمے کا ریلا
مجھ کو مجھ سے ہی جدا کرنے پہ اکسائے گا
''ایک دیوار جو حائل ہے مری سوچوں میں''
نظم
دیوار گریہ
شائستہ مفتی