EN हिंदी
''دیوانوں کا نام ابد تک ہوتا ہے'' | شیح شیری
diwanon ka nam abad tak hota hai

نظم

''دیوانوں کا نام ابد تک ہوتا ہے''

حنیف ترین

;

سنا ہے اس نے پڑھتے پڑھتے
آنکھوں کو حیران کیا ہے

پشت سے لپٹے آئینوں کے
زنگاروں کا دھیان کیا ہے

صدیوں پر پھیلی، ان دیکھی
روشنیوں کا گیان کیا ہے

پل دو پل وشرام کیا تھا
سنا ہے اس نے لکھتے لکھتے

دفتر میں اپنے جیون کے
دن کاٹے تو

راتوں کا وردان دیا ہے
گہری فکر کے موٹے موٹے

شیشے پہن کر
لفظوں میں نئے معنی اور مفہوم سمو کر

اور گمان کے دروازوں پر
نئے طور سے دستک دے کر

فکر کی اونچائی سے گزر کر
بڑے بڑے انعام ہیں پائے

دنیا کے سمان اٹھائے
لیکن اب تو

اپنے آرٹ کے تاج محل میں
اک تصویر سا لٹکا ہوا ہے