EN हिंदी
دیوانے کی جنت | شیح شیری
diwane ki jannat

نظم

دیوانے کی جنت

وسیم بریلوی

;

میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
اپنے سائے سے جھجکتی ہوئی گھبراتی ہوئی

اپنے احساس کی تحریک پہ شرماتی ہوئی
اپنے قدموں کی بھی آواز سے کتراتی ہوئی

اپنی سانسوں کے مہکتے ہوئے انداز لئے
اپنی خاموشی میں گہنائے ہوئے راز لئے

اپنے ہونٹوں پہ اک انجام کا آغاز لئے
دل کی دھڑکن کو بہت روکتی سمجھاتی ہوئی

اپنی پائل کی غزل خوانی پہ جھلاتی ہوئی
نرم شانوں پہ جوانی کا نیا بار لئے

شوخ آنکھوں میں حجابات سے انکار لئے
تیز نبضوں میں ملاقات کے آثار لئے

کالے بالوں سے بکھرتی ہوئی چمپا کی مہک
سرخ عارض پہ دمکتے ہوئے شالوں کی چمک

نیچی نظروں میں سمائی ہوئی خوددار جھجک
نقرئی جسم پہ وہ چاند کی کرنوں کی پھوار

چاندنی رات میں بجھتا ہوا پلکوں کا ستار
فرط جذبات سے مہکی ہوئی سانسوں کی قطار

دور ماضی کی بد انجام روایات لئے
نیچی نظریں وہی احساس ملاقات لئے

وہی ماحول وہی تاروں بھری رات لئے
آج تم آئی ہو دہراتی ہوئی ماضی کو

میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
کاش اک خواب رہے تلخ حقیقت نہ بنے

یہ ملاقات بھی دیوانے کی جنت نہ بنے