چار جانب ہے یہی شور دوالی آئی
سال ماضی کی طرح لائی ہے خوشیاں امسال
یوں تو ہر شخص مسرت سے کھلا جاتا ہے
پھر بھی بچے ہوئے جاتے ہیں خوشی سے بے حال
ہر بشر محو ہے اس جشن کی تیاری میں
تاکہ خوشیوں کا قمر اور ضیا بخش ہے
کر رہے ہیں سبھی مل جل کے صفائی گھر کی
ان کی کوشش ہے کہ تابندہ ہر ایک نقش بنے
اتر آئے ہیں زمیں پر بھی فلک سے تارے
دامن چرخ میں اے دوستو کیا رکھا ہے
رشک افلاک نظر آتی ہے ہر اک بستی
آج دھرتی کو بھی آکاش بنا رکھا ہے
صاف شفاف چمکتے ہوئے پر نور مکاں
صحن گلشن میں کھلے جیسے ہوں رنگین گلاب
جھیل میں تیرتے ہوں نور سے معمور کنول
یا اتر آئے ہوں گردوں سے ہزاروں مہتاب
مجھ کو بھاتی نہیں واللہ میں سچ کہتا ہوں
ظاہری اور دکھاوے کی سجاوٹ یارو
جب کہ آزاد ہیں سب ملک بھی اپنا آزاد
مجھ کو اچھی نہیں لگتی ہے بناوٹ اب تو
ہم نے اجداد کی عادات بھلا رکھی ہیں
ان کی نظروں میں تو ہر قوم برابر تھی کنول
وہ سمجھتے تھے ہر اک قوم کو اپنا بھائی
ان کی اس بات کے شاہد ہیں ابھی دشت و جبل
دشت میں رام نے شبری کی ضیافت کھائی
بھیلنی کے یہاں کھانے میں بھی انکار نہ تھا
کیا بتائیں گے یہ ارباب خرد اب مجھ کو
غیر سگریو شری رام کا کیا یار نہ تھا
رام کی فوج میں ہر قوم کے افراد نہ تھے
کیا ہنومان نہ تھے فوج کی ان کی سالار
میں کروں اس کی شکایت تو نہیں ہے بے جا
کیا تمہیں آج حقیقت میں ہے اجداد سے پیار
کیا تمہیں چھوت کا یہ درس بزرگوں نے دیا
کیا تمہیں فرقہ پرستی کی اجازت دی تھی
رام کے ماننے والو کبھی اتنا سوچا
کیا بزرگوں نے کسی قوم سے نفرت کی تھی
میرا کہنا ہے یہی ہند کے باشندوں سے
قلب کی اپنے صفائی کرو پہلے یارو
دل میں نفرت کی سیاہی کی جو آمیزش ہے
آب الفت سے دھلائی کرو پہلے یارو
اب تو الفت کے چراغوں کو جلا کر پہلے
گھر میں ہر اک کے نئی جوت جگانا ہے تمہیں
نور الفت سے سجانا ہے نئے بھارت کو
مل کے تہوار دوالی کا منانا ہے تمہیں
مجھ کو خواہش ہے اسی شان کی دیوالی کی
لکشمی دیش میں الفت کی شب و روز رہے
دیش کو پیار سے محنت سے سنواریں مل کر
اہل بھارت کے دلوں میں یہ کنولؔ سوز رہے
نظم
دیوالی آئی
کنولؔ ڈبائیوی