EN हिंदी
دیمک | شیح شیری
dimak

نظم

دیمک

وحید اختر

;

کرم خوردہ کاغذوں کے ڈھیر میں مدفون ہے
چاٹتا ہے حرف حرف

دائرے قوسین سن تاریخ اعداد و شمار
نقطہ و زیر و زبر تشدید و مد

حاصل بینائی و ذوق نظر
باندھتا ہے وہم و تخمین و گماں کے کچھ حصار

چومتا ہے کتبۂ لوح مزار
چند نقطے اڑ گئے ہیں لفظ کچھ کاواک ہیں

اس کی نظروں میں خزینہ علم کا خار و خس و خاشاک ہیں
کیا علائم کیا رموز اشکال الفاظ و حروف

آتش تغئیر کے ہاتھوں پگھل جاتے ہیں سب
وقت کی بھٹی میں تپ کر اک نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں سب

لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا سر حیات
منجمد الفاظ کے سینے میں اپنا نور پھیلاتا نہیں

کرم خوردہ کاغذوں کی لاش میں
خوں اپنا دوڑاتا نہیں

کرم کاغذ ہے حریف روز و شب
چاٹتا ہے فضلۂ علم و ادب

اور سر اکڑائے خلاقان معنی کی طرف خندہ بہ لب