EN हिंदी
ڈائری | شیح شیری
Diary

نظم

ڈائری

دپتی مشرا

;

ردی اخبار کی طرح
مجھے بیچ دیا گیا

ایک کباڑی کے ہاتھوں
ترازووں میں تول کر

اس نے میری قیمت آنک دی
خوبصورت جلد

جس پر میرا عنوان لکھا تھا
اس نے نوچ پھینکی

وزن بڑھانے والا گتے کا ٹکڑا
اسے قبول نہیں تھا

میں بے نام ہو گئی
میرے اوراق پھڑپھڑا اٹھے

کسمسا اٹھے
تب ایک بھاری باٹ

دھر دیا گیا مجھ پر
اور میں

نئی تازہ ہوا سے
محروم ہو گئی

ردی کے گٹھر کے ساتھ وہ کباڑی
مجھے اپنے گھر لے گیا

وہاں میرا ایک ایک ورق پھاڑا گیا
لفافے بنائے گئے

ہلدی دھنیہ اور مرچ
رکھنے کے لئے

ماہر انگلیاں لفافے بنا رہی تھیں
میرے صفحوں پر لکھی عبارتیں

ٹوٹ پھوٹ کر سامنے آ رہی تھیں
کیا غضب ہے نہیں انسان کو انسان کی قدر

ہر فرشتے کو یہ حسرت ہے کہ انساں ہوتا
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
آخری ورق کو

ایک بچے نے اٹھا لیا
کھیل کھیل میں ہوائی جہاز بنا کر

آسمان میں اڑا دیا
اس پر لکھا تھا

میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے