میرے اندر
مرے آگے پیچھے بھی میں ہوں
زمانوں کے سایوں کی وسعت سمیٹے
مرا دائرہ اپنے امکان کی حد پہ نوحہ کناں ہے
جہاں دھند کے ساتھ بہتی ہوئی موت
اب ایک جنگل بنائے کھڑی ہے
مری آنکھ میں منجمد خوف تحلیل ہونے کو تیار ہے
یہ وہ لمحہ ہے
جس کی گواہی کی نمکینی میرا حلال بدن ہے
مگر کیا یہ میرے لیے ہے؟
کسی اور کی آنکھ میں خوف تحلیل ہونے کو تیار بھی ہے؟
میرے اندر
مرے آگے پیچھے کوئی اور بھی ہے؟
جہاں میں کھڑا ہوں
وہاں موت کی انگلیاں جنگلی خوف بننے میں مصروف ہیں
یہاں سے بہت دور
اک نیلگوں جھیل میں تیرتی مچھلیاں
اپنی آنکھوں کی حیرانیاں
صاف ،شفاف پانی میں یوں گھولتی ہیں
مرے ہونٹ جیسے کسی جسم کے آئینے کے تحیر کو توڑیں
وہاں کوئی تازہ ہواؤں کے دریا میں
تیراک ہونے کی خواہش جگاتا ہے
لیکن جہاں میں کھڑا ہوں
وہاں زندگی ڈھونڈنے کی مشقت (مشیت)
ہمیں زندہ رہنے پہ مجبور تو کر رہی ہے
مگر آسمانوں پہ نظریں جمائے ہوئے
ہم کو پتھر چبانے کا عادی بنائے ہوئے
نظم
دھند سے لپٹا راستہ
قاسم یعقوب