روشن روشن روشن
آنکھیں یوں مرکوز ہوئی ہیں جیسے میں ہی میں ہوں
مجھ میں لا تعداد فسانے اور معانی ہیں
میں صد ہا اسرار چھپائے پھرتا ہوں
میں خوش قسمت ہوں میرے ساتھ جہان رنگ و رعنائی ہے
اور دریچہ بند نہاں خانوں سے روح یزداں کی خوشبو اٹھتی ہے
میرا سر و مشام معطر کرتی ہے
اور مری تقدیر جہاں پر خلق ہوئی ہے
جو ارمان کسی کے دل میں ہے میں اس کی خوشبو ہوں
وا حسرت کا ارض و سما میں پھیلا نغمہ
جب محبوب تلک جا پہنچے
تو پھر میں آواز نہیں رہتا ہوں
اور نہ شریانوں کا بہتا خون خرابہ
بلکہ لفظ مطلق بن جاتا ہوں
آنکھیں یوں مرکوز ہوئی ہیں جیسے میں ہی میں ہوں اور نہیں ہے کوئی
سچی بات مگر ہے اتنی
میں مردار سمندر ہوں
احساس زیاں کا جھونکا ہے
آنکھیں بول نہیں سکتی ہیں
اور بدن بینائی سے محروم ہوا ہے
لیکن میں تو اب تک خواب زدہ تصویریں دیکھ رہا ہوں
اور سمندر کے پربت پر ٹھہرا جنگل
بیتے گیتوں سے پر جنگل
ازلی خاموشی کے ہالے میں تھر تھر کانپ رہا ہے
صدیاں سائے شوخ فصیلیں آمنا صدقنا
اے لو! سورج چاند ستارے دھرتی کے سینے پر اترے
میری راہ گزر پر بکھرے
ہلکی مدھم اور مسلسل حرکت
منزل پھول کنول کا پھول عدم کے بحر بے پایاں میں
تنہا جھولے
باہر پر مرکوز نگاہوں سے مخفی لفظ مطلق
تنہا اور اداس کنول پر جھلمل جھلمل پھوٹ بہا
موہوم ردائے کوہ و دشت و دمن
دنیائے من و تو پر چھائی
پھیکی پھیکی ہو کر پھیل گئی دھول بنی
اپنا گاؤں، گوری کے پانو تک دھندلائے
پھیلی روشن اور نرالی دھند، اور دھند اور دھند
نظم
دھند
افتخار جالب