EN हिंदी
دھند | شیح شیری
dhund

نظم

دھند

بلال احمد

;

جب دسمبر میں دھند اترتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی، تہہ بہ تہہ ہم پہ فاش ہوتی ہوئی

یہ کسی یاد کے دسمبر سے دل کی سڑکوں پہ آ نکلتی ہے
راہ تو راہ دل نہیں ملتا دھند جب ہم میں آ ٹھہرتی ہے

کیف کی صبح خوش مقدر میں، یہ در راز ہم پہ کھلتا ہے
جیسے دل سے کسی پیمبر کے، رب کی پہلی وحی گزرتی ہے

راہ چلتے ہوئے مسافر پر یوں دسمبر میں دھند اترتی ہے
باغ بھی، راہ بھی، مسافر بھی راز کے اک مقام میں چپ ہیں

دھند ان سب سے بات کرتی ہے اور یہ احترام میں چپ ہیں
دھند میں اک نمی کا بوسہ ہے

میری آسودگی کے ہاتھوں پر ایک بسری کمی کا بوسہ ہے
ایک بھولی ہوئی کمی جیسے، دھند میں یاد کی نمی جیسے

میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے میری آنکھوں سے بات کرتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی جب دسمبر میں دھند اترتی ہے