EN हिंदी
دھند | شیح شیری
dhund

نظم

دھند

علی اکبر عباس

;

مسافروں سے کہو آسماں کو مت دیکھیں
نہ کوئی ابر کا ٹکڑا

نہ کوئی تار شفق
گذشتہ شام کا اٹھا ہوا وہ گرد و غبار

ابھی تلک ہیں فضائیں اسی سے آلودہ
وہ ایک آگ کبھی زاد راہ تھی۔ اپنا

جہاں قیام کیا تھا
وہیں پہ چھوڑ آئے

تو اہل قافلہ
اب داستان گو سے کہو

کوئی روایت کہنہ کوئی حکایت نو
جو خوں کو سرد کرے

اور سوچ بکھرا دے
کہ ایسے وقت میں خاموشیاں تو ٹھیک نہیں