دھند اچھی ہے
مرے ذہن کی ہم زاد ہے دھند
دھند اچھی ہے
ہر اک جبر سے آزاد ہے دھند
دھند میں ڈوبے ہوئے خار و گل او سنگ و زجاج اچھے ہیں
ایک ابہام میں تحلیل ہوئے جاتے ہیں منظر سارے
پردۂ ذہن پہ کجلائے ہوئے شہر کی تصویر ہے دھند
خواب میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہے دھند
ہاں مگر دھند کے اس پار چمکتا سورج
تند خو شعلہ نفس ہونکتے مرکب پہ سوار
اپنی ہیرے کی کنی ایسی انی لے کے بڑھا آتا ہے
نظم
دھند اچھی ہے
خورشید رضوی