EN हिंदी
دھن | شیح شیری
dhun

نظم

دھن

محسن آفتاب کیلاپوری

;

جب سے کھولی ہے آنکھ دنیا میں
ایک ہی دھن سوار رہتی ہے

جسم کا کھول جو ملا ہے مجھے
سانس لے لے کے توڑ دوں اس کو

اور دھرتی کی گود میں چپ چاپ
آ کے سو جاؤں

میں امر ہو جاؤں