EN हिंदी
دھواں اٹھ رہا ہے | شیح شیری
dhuan uTh raha hai

نظم

دھواں اٹھ رہا ہے

آشفتہ چنگیزی

;

دھواں اٹھ رہا ہے
افق سے دھواں اٹھ رہا ہے

سمندر کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں
بہت دھیمی دھن پر

کوئی ماہیا گا رہا ہے
حرکت حرکت حرکت حرکت

قویٰ شل ہوئے جا رہے ہیں
اچانک وہ آبی پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھتے ہیں

سبھی چیختے ہیں
تو سلطان صاحب سریر آمدی

علیٰ کل شئ قدیر آمدی
کلیسا شوالے مقدس ندی

اذاں کی پھواروں سے سارا بدن بھیگتا ہے
کوئی آنکھیں پھاڑے ہوئے

کہہ رہا ہے
کہ وہ دھند کے اس طرف

روشنی روشنی روشنی روشنی
سبھی چیختے ہیں

سرائے میں تالا پڑا ہے!
افق سے دھواں اٹھ رہا ہے!!