وہ قہوہ خانے میں آیا
اور ہماری میز کے کنارے بن پوچھے ہی بیٹھ گیا
ہم باتوں میں کھوئے ہوئے تھے
سوچ رہے تھے دنیا کیا ہے
کیا یہ اسٹیج ہے جس پر جیون کا ناٹک ہوتا ہے
کیا ہم اس بے نام ڈرامے کے ہیں بس فرضی کردار؟
الجھی تھی اپنی گفتار
اور اچانک وہ نو وارد
سگریٹ کا ایک گہرا سا کش لے کر اٹھا
ہم لوگوں کو غور سے دیکھا
اور یہ کہہ کر جانے لگا
تم سب اتنا سوچ رہے ہو
مجھ سے پوچھو دنیا کیا ہے
ہم نے سوچا بات کرے گا
لیکن ایک برقی سرعت سے وہ نو وارد جا بھی چکا تھا
(بیرے نے بتلایا صاحب! آنے والا دیوانہ تھا)
اب ہم لوگ یہ سوچ رہے تھے
وہ تو خیر ایک فرازانہ تھا
لیکن ہم اس فکر کے ہاتھوں اک دن پاگل ہو جائیں گے
سگریٹ اور کافی دھوئیں میں اڑ کر بادل ہو جائیں گے!!

نظم
دھواں
سلام ؔمچھلی شہری