میرا آنسو مجھے واپس دے دو
اب میں آنسو نہ بہاؤں گا کبھی
میں یہ موتی نہ لٹاؤں گا کبھی
یہ بھی دیکھو کہ ہیں اس بوند میں کیا رنگ چھپے
سوچتا ہوں کہ دھنک ہے یہ بھی
اس میں ہے خون جگر کی سرخی
ہے مرے چہرۂ غم ناک کی زردی اس میں
درد کی نیلگوں لہروں کی توانائی ہے
دل کے تالاب پہ لہراتی ہوئی
گلگلی کائی کی سبزی بھی تو ہے
اس میں نارنجی شگوفوں کی اداسی بھی تو ہے
اودے بادل کی لرزتی ہوئی پرچھائیں بھی ہے
میرے ماحول کی تاریک سفیدی بھی تو ہے
میرا آنسو مجھے واپس دے دو
میں یہ موتی نہ لٹاؤں گا کبھی
نظم
دھنک کی بوند
اسلم فرخی