ایک کتا جھاڑیوں میں لا وارث نو مولود بچے کی حفاظت کر رہا تھا
ایک ماں اپنے ننھے بچے کے گال پر کاجل کا ٹیکہ لگا رہی تھی
ایک معصوم بچے کی انگلی پکڑ کر ایک بوڑھا اور نا بینا شخص
سڑک پار کر رہا تھا
رامش و رنگ میں ڈوبی ہوئی برات میں ہنڈیوں کو اپنے سروں پر
مزدور اٹھائے ہوئے تھے
میری آنکھوں میں آنسو تھے اور پالن ہار تو مجھے یاد آ رہا تھا
دہی بلوتی ہوئی مشفق ماں کے ہونٹوں سے شہد میں گوندھے ہوئے
کجری کے بول پھوٹ رہے تھے
سرکنڈا ہاتھ میں لیے ہوئے ننگ دھڑنگ چرواہا برہا کی تان لگا رہا تھا
سورج کی نرم کرنوں کے جھالے میں دریا کنارے
سوہنی برتن مانجھ رہی تھی
پونم کے ہنڈولے پر چرخہ کاتتی ہوئی دادی ماں کو بچے ڈھونڈ رہے تھے
میری آنکھوں میں آنسو تھے اور پالن ہار تو مجھے یاد آ رہا تھا
فضا کے سوپ میں دھوپ کو پچھورتی ہوئی ہوا
میرے کھپریل میں امرت انڈیل گئی تھی
گیہوں کی ہری بالیوں رائی کے اجلے بھولوں سرسوں کی نیلی چنریوں
اور السی کی نیلی اوڑھنیوں کو دیکھ کر
میرے ابا کی بوڑھی آنکھوں سے جگنو گرنے لگے تھے
نو مولود بچھڑے کے جسم کو چاٹتی ہوئی گائے پہلو میں گھاس لیے کھڑی ہوئی
میری اماں کو کنکھیوں سے دیکھ رہی تھی
میری باجی اپنے حصے کا باسی دال بھات بھوکی بلی کو کھلا رہی تھی
میری آنکھوں میں آنسو تھے اور پالن ہار
تو مجھے یاد آ رہا تھا
نظم
دھنک
عنبر بہرائچی