EN हिंदी
ڈھلتی رات | شیح شیری
Dhalti raat

نظم

ڈھلتی رات

تخت سنگھ

;

کون جانے کہ ابھی رات ہے کتنی باقی
عمر ہنگامۂ ظلمات ہے کتنی باقی

ابھی ہر سمت دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
پڑ رہی ہے ابھی آکاش سے تاریک پھوار

ابھی زندان خموشی کے سیہ حجرے میں
سن رہا ہوں کسی ناگن کی مسلسل پھنکار

خوف سے دبکے ہوئے بیٹھے ہیں صدہا پنچھی
تہہ بہ تہہ شاخوں کی تاریک گپھاؤں میں ابھی

سانس لینے پہ ہیں مجبور سلگتے ہوئے راگ
اک فسوں کار خنک خواب کی چھاؤں میں ابھی

عالم یاس میں ہیں پیڑ ابھی محو دعا
جانب چرخ اٹھائے ہوئے اپنی باہیں