EN हिंदी
دیوداس | شیح شیری
dewdas

نظم

دیوداس

انجم اعظمی

;

زندگی عشق کی وحشت بھرا افسانہ تھی
میرے ہاتھوں میں وہ اک زہر کا پیمانہ تھی

روح کا غم مع گلفام سے کم کیا ہوتا
کوئی تریاک بجز وصل صنم کیا ہوتا

کھو گئی پاربتیؔ روتی رہی چندر مکھیؔ
زندگی لٹتی رہی راہ گزاروں میں مری

غمگساروں کی بھی یاد آئی مگر بھول گیا
اس کی بانہوں کے سوا کچھ نہ مجھے یاد رہا

اک ابھرتی رہی تصویر خلا میں برسوں
میں اکیلا ہی پھرا دشت وفا میں برسوں

جل بجھا جسم کے ہم راہ دل سوزاں تک
جان دینے چلا آیا ہوں در جاناں تک

مر رہوں جیسے بے بس و لاچار مرے
کیا قیامت ہے کہ یوں عشق کا بیمار مرے

ناامیدی ہے کہ اب طاقت دیدار گئی
رخ جاناں کی ہوس روح گرفتار گئی

رات لو ختم ہوئی اور زباں بند ہوئی
مجھ کو معلوم تھا خاموش سویرا ہوگا

لوگ پھینک آئیں گے مجھ کو جہاں اس مرگھٹ پر
موت کا چھایا ہوا گھور اندھیرا ہوگا

چیل کوؤں نے مگر لاش کے ٹکڑے کر کے
ہر طرف کوچۂ جاناں میں بکھیرا ہوگا