EN हिंदी
ڈپریشن | شیح شیری
depression

نظم

ڈپریشن

منصور آفاق

;

خوف کے جزیرے میں۔۔ قید ہوں میں برسوں سے
دور تک فصیلیں ہیں

اور ان پہ لوہے کی اونچی اونچی باڑیں ہیں،
نوک دار کیلیں ہیں

ڈالتا کمندیں ہوں۔۔۔ جیل کے کناروں پر۔۔۔
خار دار تاروں پر

سیٹیاں سی بجتی ہیں دیر تک سماعت میں
پہرے دار آتے ہیں

بیڑیاں سی سجتی ہیں
پاؤں کو اٹھانا، بھی ہاتھ کو ہلانا بھی

جسم بھول جاتا ہے
جرم بھی نہیں معلوم، عمر بھی نہیں معلوم

کچھ پتا نہیں مجھ کو۔۔۔ اس طرف فصیلوں کے
کس قدر سمندر ہے

کشتیاں بھی چلتی ہیں، بادباں بھی کھلتے ہیں
نور کے جہاں بھی ہیں، جسم کے مکاں بھی ہیں،

آدمی وہاں بھی ہیں
چھوڑیئے، نہیں جاتے

کیا کریں گے باہر بھی۔۔۔
ٹھیک ہے فصیلوں میں

آنسوؤں کی جھیلوں میں چاند کو اتاریں گے
بے حسی کے ٹیلوں پر نقش پا ابھاریں گے

موت کے گلیمر میں ڈوب ڈوب جائیں گے
قبر کے اندھیرے سے رات کو سجائیں گے

موت کا فسردہ پن کتنا خوب صورت ہے
اک جہاں اداسی کا بس مری ضرورت ہے!