EN हिंदी
دیکھتے دیکھتے | شیح شیری
dekhte dekhte

نظم

دیکھتے دیکھتے

قاضی سلیم

;

چیونٹیاں کتنی روندی گئیں
آخری سانس تک

پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں
سر اٹھاتی رہیں

کتنا بے مدعا حوصلہ
دیکھتے دیکھتے مٹ گیا

رینگتی چیونٹیاں
جلد کو چیر کر

خون میں مل گئیں
میرے اعصاب میں

بجلیاں گھل گئیں
اب میں کوئی اور ہوں

ایک گھائل درندہ
زخم ہی زخم ہیں

چاہے اپنے ہوں یا دوسروں کے
زخم ہی زخم ہیں

مجھ پہ اب کوئی ہنستا نہیں
ساری بستی ہے سہمی ہوئی

لوگ سب فلسفے
باندھ کر بھاگ اٹھے

میں اکیلا بڑی دیر تک
خود پہ ہنستا رہا

آئنے سے یہ کہتا رہا
یا تو ہر درد کے کوئی معنی ہیں

یا پھر کسی درد کے کوئی معنی نہیں