ہماری مجلس شوریٰ کے اونچے اونچے محل
نظر جھکائے جمود عمل سے سر بوجھل
وہ بے بسی کہ ذرا آگے بڑھ نہیں سکتے
کتاب وقت کی تحریر پڑھ نہیں سکتے
بھڑک رہے ہیں نگاہوں کے سامنے شعلے
زباں نہ منہ میں ہو جس کے وہ کس طرح بولے
یہ شہر دلی بہشت نظر جو تھا کل تک
بنا ہوا ہے جہنم زمیں سے تا بہ فلک
سیاہ شعلے دلوں کی سیاہیاں لے کر
اٹھے ہیں آج وطن کی تباہیاں لے کر
مکاں کو خود ہی مکینوں نے کر دیا برباد
مٹا دی اپنے ہی ہاتھوں سے سطوت اجداد
خود اپنی تیغوں سے اپنے ہی گردنیں کاٹیں
تڑپتی لاشوں سے نفرت کی خندقیں پاٹیں
تمام شہر پہ چھائی ہوئی ہے اک وحشت
نظر جھپکتے ہی کیسی بدل گئی حالت
دکانیں لٹ رہی ہیں گولیوں کی بارش ہے
سیاہ کاروں سے اہل دول کی سازش ہے
درندے دوڑتے پھرتے ہیں سڑتی لاشوں میں
لہو سے تر کیے ناخون گوشت دانتوں میں
گھروں کا حال تو بازار سے بھی بدتر ہے
جدھر اٹھاؤ نظر زندگی مکدر ہے
جو لٹ چکے ہیں وہ گھر سائیں سائیں کرتے ہیں
جو جل رہے ہیں ابھی سرد آہیں بھرتے ہیں
نکل پڑے ہیں مکانوں کو چھوڑ کر شہری
جب آبرو پہ بن آئی تو موت کی ٹھہری
ہزاروں عورتوں کا آج لٹ رہا ہے سہاگ
نہ جانے کتنی تمناؤں میں لگی ہے آگ
یتیم بچے بلکتے ہیں گودیوں کے لیے
غریب شہر ترستے ہیں روٹیوں کے لیے
اجڑ کے کتنے معابد بنے سیہ خانے
جو آدمی کو نہ سمجھا خدا کو کیا جانے
یہ حال دیکھ کے سکتے میں آ گئی ہے فصیل
تمام قلعے کا میداں بنا ہے خون کی جھیل
بہائے بیٹھی ہے آنسو لہو کے چاندنی چوک
قرول باغ کے دل میں قرولیوں کی نوک
پرانی دلی سے بھی بڑھ گئی نئی دلی
پرانے قلعے میں جا کر بسی نئی دلی
ہزار بار یہ بستی اجڑ اجڑ کے بسی
ہزار بار یہ دلی بگڑ بگڑ کے بنی
مگر کچھ اب کی دفعہ اس طرح کے چرکے ہیں
کہ جتنی چوٹیں ہیں اتنے ہی دل کے ٹکڑے ہیں
یہ جڑ تو سکتے ہیں لیکن کہاں ہے وہ مرہم
جو ٹوٹے رشتوں کو قوموں کے کر دے پھر باہم
مگر یہ کیسے ہو جب چارہ ساز خود لاچار
علاج کون کرے جب طبیب خود بیمار
ہماری مجلس شوریٰ کے اونچے اونچے محل
نظر جھکائے جمود عمل سے سر بوجھل
نظم
دہلی
وامق جونپوری