EN हिंदी
گزر رہے ہیں گزرنے والے | شیح شیری
guzar rahe hain guzarne wale

نظم

گزر رہے ہیں گزرنے والے

انجم رومانی

;

لرزنے والے لرز رہے ہیں
لرزتے جھونکے

گزرتے بل کھاتے رینگتے سرسراتے جھونکے
نسائی ملبوس کی طرح سرسرانے والے

کڑکنے والی کی چابکوں سے
اگرچہ دور رواں کے آنسو ٹپک رہے ہیں

مگر نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے دیکھتی ہے
گزر رہے ہیں گزرنے والے

یہ کون دبکا ہوا اس آوارہ راستے میں کھڑا ہوا ہے
کہ جیسے صابن کا کوئی رنگین بلبلہ ہو

زمیں کے بچپن میں جو بھی شے تھی وہ نا شناسائے آرزو تھی
شباب آیا تو رینگنے والی رینگ اٹھی

اور آج یہ حال ہے کہ ہر شے یہ چاہتی ہے
کہ ایک طوفان بن کے گرائے راستوں میں

یہ کون دبکا ہوا اس آوارہ راستے میں کھڑا ہوا ہے
کہ جس طرح بہتے بہتے آواز رک کے یہ سوچنے لگی ہو

کہ جوئے صحرا بہے گی کب تک
یہ زندگی ایک جوئے صحرا ہے بہہ رہی ہے

لرزنے والے لرز رہے ہیں
مگر نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے دیکھتی ہے

گزر رہے ہیں گزرنے والے