EN हिंदी
وقت کی صدیاں | شیح شیری
waqt ki sadiyan

نظم

وقت کی صدیاں

داؤد غازی

;

نہ جانے کتنی صدیوں سے زمانہ
مثال موج بہتا آ رہا ہے

سکوں کا رنگ اس کو کب ملا ہے
پریشاں ہے یہ کیوں کس کو پتا ہے

یہ بیتابی ہر اک لمحے کی کیا ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دریا

لئے طوفاں ہزاروں اپنے اندر
سکوں سے پر نظر آتا ہے باہر

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے زمانہ
کشاکش سے بھرا ہوتا ہے لیکن

نظر آتا ہے اک نقطے پہ ساکن
زمانہ کب مگر ساکن رہا ہے

کہ چلتا ہی رہا ہے یہ زمانہ
دما دم پے بہ پے لمحہ بہ لمحہ

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ راہی
نظر آتا ہے کچھ رکتا ہوا سا

ہراساں مضمحل تھکتا ہوا سا
مگر راہی سفر میں کب رکا ہے

کہ راہی زندگی کا گر رکے گا
یقیناً اپنی منزل پر رکے گا

مگر یہ زندگی تو بے کراں ہے
نگاہ شوق کی منزل کہاں ہے

کہ ہر منزل فقط وہم و گماں ہے
یہ ہستی جہد غم کی داستاں ہے

بظاہر ہے سبک رفتار و کمزور
غنیم شوق ہو مد مقابل

تو اس کا ہر نفس آتش فشاں ہے
ہے یوں تو زندگی کتنی سبک رو

عجب اک ایک لمحے کی تگ و دو
یہ اک لمحہ گزرتا ہی نہیں ہے

مگر جب اس نظر کے سامنے سے
گزرتی ہے خرد بجلی کی صورت

دکھا کر اک انوکھا سا کرشمہ
تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے

زمانہ کتنا آگے جا چکا ہے
زمانہ اور بھی آگے بڑھے گا

لئے باہم سبک رفتار لمحے
گزرتا جائے گا صدیوں کو روندے

خرد کی رہنمائی کے سہارے