EN हिंदी
دوام | شیح شیری
dawam

نظم

دوام

شہاب جعفری

;

مجھے آج محسوس یوں ہو رہا ہے
کہ میں مر گیا ہوں

مرا نام کچھ بھی ہو میں عام سا آدمی
اس سے کچھ فرق پڑتا نہیں

ایک احساس کے مختلف نام ہیں
ساری دنیا میں جو شخص دنیا سے اٹھا ہے وہ میں ہوں

میں جس نے دیکھا ہے ہر شخص میں خود کو مرتے ہوئے
مجھ کو جس طرح چاہو پکارو کہ وہ مرنے والا تو میں ہی ہوں

لوگو شہادت سے بڑھ کر مری موت بے لوث ہے
اور کسی کا مرے پاس کچھ بھی نہیں

جب بھی آیا ہوں تم سب میں تم بن کے زندہ رہا
اور دنیا سے جاتے ہوئے ساتھ صرف اپنا غم لے گیا

غم جو دنیا میں ''میں'' بن کے پھر آئے گا