دوام کے دیار میں
دوام کے قدیم ریگ زار میں
عدم جہاں سراب ہے
ترے مرے کئی نشاں تڑپ تڑپ کے مر گئے!
اک اجنبی سی خاک پر کئی زماں بکھر گئے
اس اجنبی سی خاک پر
سب اپنی اپنی سانس کو سمیٹ کر نکل پڑے
علیل سی نجات میں پھر اپنی روح پھونکنے!
نجات اک فریب ہے
یہ دشت انتظار میں
دوام کے قدیم ریگ زار میں
جہت کا اک مزار ہے
کہ جس کے گنبدوں کے ہونٹ پر یہی پکار ہے
نجات اک فریب ہے
نجات کا حصار کیا؟
دوام اپنی موت ہے
دوام سے فرار کیا؟
نظم
دوام کے دیار میں
ریاض لطیف