EN हिंदी
دور افتادگی | شیح شیری
daur uftadgi

نظم

دور افتادگی

ساجدہ زیدی

;

نغمگی گیت حرف و نوا
نالۂ شوق صوت و صدا

ایک بہری سیاست کے دربار میں
سرنگوں پا بہ زنجیر لائے گئے

سارا سیماب نقد و نظر
سب طلسمات حرف و ہنر

پردۂ سحر و اسرار سے ٹوٹ کر
مقتل آرزو بن گئے

وہ طرب زار دل قصر غم
رات بھر جاگتی آگہی یعنی

اقلیم جاں
مشینوں کے کھنڈرات میں کھو گئے

وہ جو آہنگ عالم تھا
خوابوں کا مسکن تھا اور حرف و معنی کی تطہیر تھا

اپنی بیداریوں کی سزا کاٹنے کے لیے
سنگ و آہن میں ڈھالا گیا

سجدۂ حق
تمنا کے آفاق تک درد کے قافلے

کعبۂ نور تک آبلہ پائی کے سلسلے
زر مغرب کی میزان میں تل گئے

ہم کہ اس دشت میں آبلہ پا تھے صدیوں سے
اس راہ کے سنگ میل

اپنے قدموں کے ہم راز تھے
ہم بھی اس دور افتادگی میں

بس
تماشائے اہل کرم دیکھتے رہ گئے