EN हिंदी
دشت بے اماں | شیح شیری
dasht-e-be-aman

نظم

دشت بے اماں

خورشید اکبر

;

تجھے یاد کرتے کرتے
تری راہ تکتے تکتے

مرے اجنبی مسافر
کئی دن گزر گئے ہیں

کوئی شام آ رہی ہے:
کوئی خوش نما ستارہ جو فلک پہ ہنس رہا ہے کسی مہ جبیں کی صورت

جو نظر کو ڈس رہا ہے
وہی ایک استعارہ

تری یاد رہ گزر پر مرا ہم سفر بنا ہے
وہی اک ضیا سلامت

سر شام تیرگی میں
مرے کام آ رہی ہے

مرے راستے کے آگے
کسی رات کا گزر ہے

کہیں وہم سر بہ سر ہے
کہیں خوف کا اثر ہے

کہیں سرسراہٹیں ہیں
کہیں جھنجھناہٹیں ہیں

نہیں دشت ہو میں آہو
نہیں جنگلوں میں جگنو

تری یاد وہ کھلونا جسے توڑ بھی نہ پاؤں
کہیں چھوڑ بھی نہ پاؤں

ابھی نصف شب ہے گزری
تجھے یاد کر رہا ہوں ترے خواب دیکھتا ہوں

یہی جسم ہے بچھونا اسی جاں کو اوڑھنا ہے
ہوئی صبح در پہ دستک

ترے خواب جا چکے ہیں
تری یاد بھی ہے رخصت

نئی آرزو کھڑی ہے
نئے لوگ مل گئے ہیں

مرے سامنے ہزاروں
نئے کام آ پڑے ہیں

اسی درمیاں تصور ترا بار بار آیا
اسی راستے پہ جاناں

کوئی شام پھر ہے آئی
تری یاد نور پیکر

تری قربتوں کا سایہ
کہیں تیرگی میں گم ہے

میں اذان دے رہا ہوں
کسی دشت بے اماں میں