میں ایک بوڑھے برگد کا درخت ہوں
جس کی شاخیں کٹ چکی ہیں اور پتے
بکھر چکے ہیں میرے سینے میں ایک خلا ہے
جس میں ایک دن ایک بوڑھے بندر نے
پناہ لی تھی
نہیں اے بوڑھے برگد
تم اس گنبد والی عمارت سے
بہتر ہو جس میں ایک ظالم بادشاہ کی قبر ہے
نہیں تم نہیں جانتے اس گنبد کے پیچھے
جھونپڑیوں میں کچھ دیئے جل رہے تھے
جن ہواؤں نے یہ دیئے بجھائے ہیں
میں ان ہواؤں سے اب بھی
لڑ رہا ہوں
نظم
درویش
قمر جمیل