EN हिंदी
دروازہ کھلا رکھنا | شیح شیری
darwaza khula rakhna

نظم

دروازہ کھلا رکھنا

قائم نقوی

;

کس قدر خموشی ہے
کس قدر ہے سناٹا

رات بھر کی بارش بھی
اب تھکی تھکی سی ہے

آسماں پہ رنگوں کی
ایک رہ گزر سی ہے

اب کسی کے آنے میں
کچھ ہی دیر باقی ہے