EN हिंदी
دروازہ کھلا رکھنا | شیح شیری
darwaza khula rakhna

نظم

دروازہ کھلا رکھنا

ابن انشا

;

دل درد کی شدت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ

شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارہ
دروازہ کھلا رکھنا

سینے سے گھٹا اٹھے آنکھوں سے جھڑی برسے
پھاگن کا نہیں بادل، جو چار گھڑی برسے

برکھا ہے یہ بھادوں کی، برسے تو بڑی برسے
دروازہ کھلا رکھنا

آنکھوں میں تو اک عالم آنکھوں میں تو دنیا ہے
ہونٹوں پہ مگر مہریں منہ سے نہیں کہتا ہے

کس چیز کو کھو بیٹھا کیا ڈھونڈنے نکلا ہے
دروازہ کھلا رکھنا

ہاں تھام محبت کی گر تھام سکے ڈوری
ساجن ہے ترا ساجن اب تجھ سے تو کیا چوری

یہ جس کی منادی ہے بستی میں تری گوری
دروازہ کھلا رکھنا

شکوؤں کو اٹھا رکھنا، آنکھوں کو بچھا رکھنا
اک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا

مایوس نہ پھر جائے، ہاں پاس وفا رکھنا
دروازہ کھلا رکھنا

دروازہ کھلا رکھنا