یہ گرجا ہے کہ مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
صلیبی جنگ میں سارے سپاہی کام آئے
اب کسے پانی پلاؤ گی تم اپنے دامن تر سے
اٹھاؤ گی کسے پھیلے ہوئے بازو پہ نیلے ناخنوں پر روک لو گی
آنکھ چہرہ
جب زمیں پر راکھ ہوگی اور مٹی پھیل جائے گی
طنابیں راکھ ہو جائیں تو مٹی پھیل جاتی ہے
زمینوں آسمانوں پر
سو گرجا مجھ پہ نیلے آسماں کی مہربانی ہے
یہ دریا ہے کہ مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
زمیں جب راکھ ہو جائے تو دریا پھیل جاتا ہے
اور اس کو روک لیتی ہو تم اپنی خشک آنکھوں میں
بدن کی آڑ دے کر
جب سپاہی راستے میں بیٹھ جاتے ہیں
بچھا دیتے ہیں سایہ پتیوں پھولوں کناروں کا
تمہارے دامن تر کا
اتر جاتے ہیں گیلی جھاڑیوں میں آگ لے کر
آسماں دیکھا نہیں جاتا
تو بھیگی ریت کو سوکھی ہوا میں چھانتے ہیں
اور مٹی پھیل جاتی ہے
یہ مٹی مجھ کو کل تک آسمانوں میں اڑاتی تھی
یہ دریا مجھ کو کل تک کھینچ لاتا تھا زمینوں پر
یہ مٹی پھیلتی جاتی ہے
دریا سوکھتا جاتا ہے
مجھ پر آسماں کی مہربانی ہے
نظم
دریائے چارلس کے کنارے ایک نظم
محمد انور خالد