دیکھتے دیکھتے
چیونٹیاں کتنی روندی گئیں
آخری سانس تک
پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں
سر اٹھاتی رہیں
دیکھتے دیکھتے
میرے اعصاب میں
بجلیاں گھل گئیں
رینگتی چیونٹیاں
جلد کو چیر کر
خون میں مل گئیں
اب میں کوئی اور ہوں
ایک گھائل درندہ کہ جس کے لیے
زخم ہی زخم ہیں
(چاہے اپنے ہوں یا دوسروں کے)
آخری سانس تک
زخم ہی زخم ہیں
ساری بستی ہے سہمی ہوئی
لوگ سب فلسفے
باندھ کر بھاگ اٹھے
مجھ پہ اب کوئی ہنستا نہیں
میں اکیلا مگر
کل بڑی دیر تک خود پہ ہنستا رہا
آئینے سے یہ کہتا رہا
''یا تو ہر درد کے کوئی معنی ہیں
یا پھر کسی درد کے کوئی معنی نہیں''
نظم
دردمندی
قاضی سلیم