EN हिंदी
درد مشترک | شیح شیری
dard mushtarak

نظم

درد مشترک

حمیرا راحتؔ

;

میں اب تک یہ سمجھتی تھی
کہانی کا نہ دل ہے

اور نہ گویائی
سلیقہ ہی نہیں انکار کا اس کو

ہمیشہ لکھنے والے کی
رضا پر چھوڑ دیتی ہے

وجود اپنا
کبھی منہ سے نہیں کہتی

کہ مجھ کو اس طرف موڑو
جدھر میں چاہتی ہوں

اور یہاں تک کہ
کئی کردار مر جاتے ہیں

پھر بھی آنکھ سے اس کی
کبھی آنسو نہیں گرتے

کہانی کتنی صابر ہے
کبھی آغاز ہی ملتا نہیں اس کو

کبھی انجام سے محروم رہتی ہے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے

کہ افسانے کا خالق
اپنے افسانے میں اس کو

پاؤں بھی دھرنے نہیں دیتا
تو یہ خاموشی سی

اک کرب کی چادر میں
اپنا منہ چھپائے

لوٹ جاتی ہے
کوئی شکوہ نہیں کرتی

مگر کل شب
میں جب تنہائی میں بیٹھی

کہانی لکھ رہی تھی تو
مجھے ایسا لگا جیسے

ورق پر ایک آنسو ہے
جو میں نے غور سے دیکھا

جہاں عورت لکھا میں نے
وہیں وہ اشک ٹپکا تھا