مژۂ خار پہ کس طرح بھلا پائے قرار
عارض گل پہ نہ جب قطرۂ شبنم ٹھہرے
حادثہ ہے کہ در آئی یہ مسرت کی کرن
ورنہ اس دل پہ تھے تاریکیٔ غم کے پہرے
درد محرومیٔ جاوید ہماری قسمت
راحت وصل و ملاقات کے در بند رہے
سال ہا سال روایات کے زندانوں میں
کتنے بپھرے ہوئے جذبات نظر بند رہے
سم سم سیم سے کھل جاتے ہیں عقدوں کے پہاڑ
جگمگا اٹھتے ہیں پھولوں کے دیے صحرا میں
غازۂ زر سے ہے رخسار تمدن کا نکھار
دل تو اک جنس فرومایہ ہے اس دنیا میں
چڑھتے سورج کے پرستار ہیں دنیا والے
ڈوبتے چاند کو بن دیکھے گزر جاتے ہیں
کون جوڑے میں سجاتا ہے بھلا دھول کے پھول
شاخ کے خار بھی آنکھوں میں جگہ پاتے ہیں
تو مری ہے کہ یہاں کوئی نہیں تھا میرا
میں ترا ہوں کہ تجھے کوئی بھی اپنا نہ سکا
کتنی پیاری ہے سہانی ہے یہ دنیا جس میں
تو بھی ٹھکرائی گئی مجھ کو بھی ٹھکرایا گیا
نظم
درد مشترک
احمد راہی