EN हिंदी
درختوں پر کوئی پتا نہیں تھا | شیح شیری
daraKHton par koi patta nahin tha

نظم

درختوں پر کوئی پتا نہیں تھا

شہزاد احمد

;

درختوں پر کوئی پتا نہیں تھا
گزرتے راستے خاموش تھے

اڑتے پرندے رات کا آسیب لگتے تھے
جہاں تک بھی نظر جاتی تھی

ان لوگوں کی قبریں تھیں جو پیدا ہی نہ ہو پائے
ستارے تھے مگر وہ آسمانوں پر ہویدا ہی نہ ہو پائے

خبر یہ تھی اس مٹی میں سبزہ لہلہائے گا
یہاں وہ وقت آئے گا کہ ہر سو رنگ ہوں گے پھول ہوں گے روشنی ہوگی

مگر یہ کون بتلائے
کہ کیسے اس اندھیرے میں کمی ہوگی

جو صدیوں سے ہماری آنکھ کی پتلی کا حصہ ہے
سنا ہے وقت آگے کی طرف جاتا ہے

لیکن ہم ہزاروں سال سے اس ایک نقطے پر کھڑے ہیں جس کے نیچے کچھ نہیں ہے جس کے اوپر کچھ نہیں ہے
تم نے تو چوتھی جہت بھی ڈھونڈ لی

اور ہم پہلی جہت کی جستجو میں خاک ہو کر رہ گئے