EN हिंदी
درختوں کے لیے | شیح شیری
daraKHton ke liye

نظم

درختوں کے لیے

فاضل جمیلی

;

اے درختو! تمہیں جب کاٹ دیا جائے گا
اور تم سوکھ کے لکڑی میں بدل جاؤ گے

ایسے عالم میں بہت پیش کشیں ہوں گی تمہیں
تم مگر اپنی روایت سے نہ پھرنا ہرگز

شاہ کی کرسی میں ڈھلنے سے کہیں بہتر ہے
کسی فٹپاتھ کے ہوٹل کا وہ ٹوٹا ہوا تختہ بننا

میلے کپڑوں میں سہی لوگ محبت سے جہاں بیٹھتے ہیں
کسی بندوق کا دستہ بھی نہیں ہونا تمہیں

چاقو چھریوں کو بھی خدمات نہ اپنی دینا
ایسے دروازے کی چوکھٹ بھی نہ بننا ہرگز

جو محبت بھری دستک پہ کبھی کھل نہ سکے
اے درختو! تمہیں جب کاٹ دیا جائے گا

اور تم سوکھ کے لکڑی میں بدل جاؤ گے
کوئی بیساکھی بنائے تو سہارا دینا

اور کشتی کے لیے اتنی محبت سے تم آگے بڑھنا
کہ سمندر کی فراخی بھی بہت کم پڑ جائے

اپنے پتوار مرے بازوؤں جیسے رکھنا
جو کسی اور کی طاقت کے سوا زندہ ہیں

میری دنیا کہ ابھی واقف الفت ہی نہیں
میرے بازو بھی محبت کے سوا زندہ ہیں