چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
خمیدہ ہل کی یہ الھڑ جوان نور نظر
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہوگی
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
ہم آفتاب ضمیر جہاں میں بوئیں گے
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
کوئی بتائے زمیں کے اجارہ داروں کو
بلا رہے ہیں جو گزری ہوئی بہاروں کو
کہ آج بھی تو اسی شان بے نیازی سے
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
سنہری فصل تک اس کی چمک نہیں موقوف
کہ اب نظام کہن بھی اسی کی زد میں ہے
خمیدہ ہل کی یہ الھڑ جوان نور نظر
جب اس نظام میں لہرا کے غوطہ زن ہوگی
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
نظم
درانتی
احمد ندیم قاسمی