EN हिंदी
ڈر | شیح شیری
Dar

نظم

ڈر

نینا عادل

;

کیسے نکلے گا جیتے جی دل سے ڈر کا کا صاحب
کب خوف کی وحشی گلیوں میں بھٹکی ہوئی ساعت لوٹے گی؟

کب اندیشوں کے سانپ مرے پیڑوں سے لپٹنا چھوڑیں گے؟
سہمے ہوئے شبدوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوں

کیسے بتلاؤں کیوں مجھ کو دن کے زہریلے ہاتھوں سے!
شاموں کے سرخ آسیبوں سے، راتوں کی بے دل آنکھوں سے!

اور آس کے آٹھوں پہروں سے!
ڈر لگتا ہے

خوابوں کے رن میں پڑے ہوئے خواہش کے ادھورے جسموں سے
اور مان کی روح میں گڑے ہوئے تر پنجوں سے

جانی پہچانی آنکھوں میں پنہاں انجانی وحشت سے
رشتوں کے مذبح خانوں سے

بندھن کی زندہ لاشوں سے
ڈر لگتا ہے

اس جسم کی دیواروں میں ہے ڈر کا خستہ گارا صاحب
شیشے میں رقصاں سایوں سے، سانسوں اور آوازوں سے

پل پل میں بدلتے رنگوں سے! ڈر لگتا ہے
......نیلی پڑ جاتی ہوں صاحب

چہرے کی پیلی رنگت کو کب تک میں چھپاؤں غازے میں؟