EN हिंदी
در گذر | شیح شیری
dar-guzar

نظم

در گذر

شاذ تمکنت

;

کون وہ لوگ تھے اب یاد نہیں آتا ہے
پھینک آئے تھے مجھے یوسف کنعاں کی طرح

کھینچ لائے تھے مجھے شہر کے بازاروں میں
سب کو دکھلاتے تھے آئینہ حیراں کی طرح

لوگ کہتے ہیں کہ کوئی بھی خریدار نہ تھا
کون وہ لوگ تھے اب یاد نہیں آتا ہے

چھوڑ آئے تھے سلگتے ہوئے میداں میں مجھے
ایڑیاں رگڑیں مگر چشمۂ زمزم نہ ملا

کیسے تنہا کیا کس حال پریشاں میں مجھے
کون وہ لوگ تھے اب یاد نہیں آتا ہے

باغ آسائش ہستی بھی دکھایا مجھ کو
کوئی شداد نما تھا کوئی نمرود صفت

بے گناہی کی سزا تھی کہ وہ سچ کا انعام
رسن و دار کے منبر پہ بٹھایا مجھ کو

کون وہ لوگ تھے اب یاد نہیں آتا ہے
کوئی انسان کوئی شیطاں کوئی چہرہ کوئی نام

حافظہ شیشہ کی مانند درک جاتا ہے
اے خدا تجھ سے تو پوشیدہ نہیں ہے کوئی راز

دوست ہوں گے کہ وہ دشمن مرا پہنچا دے سلام
شکر کرتا ہوں کہ دنیا کے خزانے نے مجھے

کوئی موتی نہ سہی آنکھ تو گریاں دی ہے
کیا دیا کیا نہ دیا تو نے خدائے فیاض

کیا یہ کم ہے کہ مجھے دولت نسیاں دی ہے