آسماں کیوں دور ہوتا جا رہا ہے
تتلیاں اور فاختائیں
اپنی مفتوحہ فضا پر مطمئن ہیں
مجھ میں کیوں دم توڑتی ہے شام کی نیلی ہوا
مجھ میں کیوں سوئے پرندے
مجھ سے کیوں اونچے درختوں کی زمیں چھپنے لگی
آسماں کیوں دور ہوتا جا رہا ہے
رات کے اس شامیانے میں کوئی موسم نہیں ہے
آج میدانوں میں
اک سایہ چلے گا دور تک
آج دریاؤں میں کوئی ڈوبتا جائے گا
پھر اونچے پہاڑوں پر کوئی آواز نیلی دھند بنتی جائے گی
تم اپنے دروازوں پہ لکھ دو
آج کی شب چاند کو گرہن لگے گا
نیند کو آنکھیں نہیں مل پائیں گی
نظم
دم توڑتی ہے شام کی نیلی ہوا
اصغر ندیم سید